Add To collaction

لیکھنی ناول -17-Oct-2023

وہ ہی کہانی پھر سے از قلم ہاشمی ہاشمی قسط نمبر20

میری منزل سے کہہ آؤ مسافر تھک گیا تیرا وہ جس نے ہاتھ تھاما تھا ہمیشہ ساتھ چلنے کو اسے تو وقت کی آندھی اڑا کے لے گئی کب سے وہ میرا چاند مل جائے تو اسکو بھی بتا دینا قہر ڈھاتے ھوئے سورج کا آنچل اوڑھ رکھا ھے تمہاری چاندنی سے جو بلا کا عشق ہوتا تھا محبت چھوڑ دی وہ بھی میرے گلشن سے گزرو تو گلابی سر خ پھولوں کو میرا پیغام دے دینا کہہ جس خوشبو کو مٹھی میں چھپا ئے پھر رہا تھا میں میری زخمی ہتھیلی سے نکل کر اڑ گئی یکسر میرے خوابوں کو دیکھو تو دلاسہ انکو دے دینا ابھی آنکھوں میں آنسو ہیں عذاب ِ دید سے پلکیں ابھی تک ہیں اذیت میں ذرا سا صبر آئے تو میں واپس لوٹ آؤں گا میری منزل میرے خوابوں میرے چندا میرے گلشن مجھے تم بھول مت جانا 🌹🌹🌹🌹🌹 بلال اپنے کمرے میں کچھ کام کر رہا تھا کہ کمرے کا درواذ نوک ہوا ٹائم دیکھا تو ۱۲ بج رہے تھے پہلا خیال نور کا ایا وہ جلدی سے اٹھا اور درواذ کھولا تو سامنے احمد موجود تھا ڈیڈ بلال نے کہا احمد اندر ایا تو اس کے پیچھے احد صاحب بھی تھے ڈیڈ بڑے پاپا سب ٹھیک ہے نہ بلال نے حیران ہوتے ہوے پوچھا نور کی آنکھ کھولی تو کمرے میں اندھیر تھا اس نے کڑوٹ لی وہ اب حریم کے ساتھ ہی سوتی تھی نور اٹھ کر بیٹھ گئی اس نے پانی پیا اور گہرا سانس لیا اور اپنے خواب کے بارے میں سوچنے لگئی پھر مسکرائ تو وارث آخر کار آپ واپس آریے ہے جلدی سے اٹھی اور روم سے باہر نکالی یہ خبر وہ سب سے پہلے بلال کو دینا چاہتی تھی سو وہ اس کے روم کی طرف بڑھی کمرے کا درواذ نوک ہوا تو وہ سب چوکے بلال خود پر کنٹرول کرتا درواذ کی طرف بڑھا تو سامنے نور موجود تھی بھائی مجھے آپ سے بہت ضروری بات کرنی ہے نور نے خوش ہوتے ہوے کہا اور اندر ائی احمد اور احد صاحب کو دیکھا کر وہ حیران ہوئی آپ لوگ یہاں سب ٹھیک ہے نہ نور نے پوچھا ہاں بچے سب ٹھیک ہے ہم کچھ آفیس کے بارے میں بات کر رہے تھے آپ سوئی نہیں ابھی تک احمد نے نور کے سر پر ھاتھ پھیرتے ہوے کہا میں تو سو گئی تھی ابھی آنکھ کھولی ہے سوری مجھے ابھی بھائ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے چلے بھائ نور نے کہا پر نور بلال ابھی کچھ اور کہتا احمد بولا جائے بلال بہن کی بات سن او احمد کے لہجہ میں کچھ تھا جس کو بلال نے محسوس کیا


نور بلال کو لے کر باہر ائی بھائی میں نے ابھی خواب میں دیکھ کے وارث واپس آگئے ہے اففف بھائ میں بہت خوش ہوں آخر اللہ میری سن لی نور نے خوش ہوتے ہوے کہا جبکہ بلال خاموش رہا ارے میں نے تو ابھی کوئی تیاری نہیں کی نور نے اپنے سر پر ھاتھ مارتے ہوے کہا بھائ آپ کچھ نہیں کہے گئے نور اس کو خاموش دیکھ کر بولی تو بلال نے ضبط کرتے اس کو اپنے ساتھ لگیا خوش رہو یہ الفاظ وہ ہی جاتا ہے کہ اس نے کیسے ادا کیے اچھا میں چلتی ہوں ابھی بہت ساری تیاری کرنی ہے نور نے مسکراتے ہوے کہا اور وہاں سے چلی گئی جبکہ بلال خالی خالی نظروں سے اس کو جاتے ہوے دیکھ رہا تھا


بلال روم میں واپس ایا درواذ بند کیا اور زمیں پر بیٹھ گیا آنکھیں سے آنسو جاری ہوے احمد اس کے پاس ایا کیا کہ رہی تھی وہ احمد نے پوچھا ڈیڈ وہ تو اس سے محبت کرتی ہے اور آپ کو پتا ہے نا محبت میں الہام ہوتے ہے اس کو بھی ہو گیا وہ تیاری کر رہی ہے شاہ کی واپس آنے کی ڈیڈ وہ ایسا کیسے کر سکتا ہے ڈیڈ اس نے مجھے سے وعدہ کیا تھا کی ہم جو کرے گئے ساتھ کرے گئے ہم ایک ساتھ سکول گئے ایک ساتھ کالج ایک ساتھ آرمی وہ اکیلے کیسے شہید ہو سکتا ہے کیسے کیسے ڈیڈ وہ مجھے کہتا تھا میں بزدل ہو ڈیڈ اس کو کہے کہ میں ٹوٹ گیا ہوں واپس اجاے ڈیڈ پلیز میں اس کے بغیر کیسے رہوں گا اور نور وہ تو محبت کرتا تھا نور سے میں کیسے سنبھالو گئے کیسے ڈیڈ کیسے بلال نے کہا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا آجا پھر لڑے کھلونوں کے لیے میں ہاروں تو جیت جائے آجا پھر کرے شرارتے تو بھاگے میں مار کھاوے میھٹی سی وہ گالی تیری سنے کو بیکارا ہوں تیرا یار ہو میں تیرا یار ہو احمد نے اس کو اپنے ساتھ لگیا شششش بلال چپ آج جیتنا رونا ہے رو لو دیکھوں بلال میں آرمی میں ہوں بھائ بھی تم بھی لیکن میرا شاہ خوش نصیب ہے کہ وہ شہید ہوا مجھے فخر ہے شاہ پر ہم شہید کی موت پر ماتم نہیں کرتے یہ آنسو شکر کے ہونے چاھیے نہ کے غم کہ شاہ اپنے خون کے آخری قطرہ تک لڑہا اور آخر میں وہ شہید ہوا میرا اور بھائی صاحب کا سر فخر سے بلند کر گیا لگانے آگ جو آئے تھے آشیانے کو وہ شعلے اپنے لہو سے بجھا دیئے تم نے بچا لیا ہے یتیمی سے کتنے پھولوں کو سہاگ کتنی بہاروں کے رکھ لیے تم نے تمہیں چمن کی فضایئں اسلام کہتی ہے آے راہ حق کے شہیدو وفا کی تصویرو تمہیں وطن کی ہوائیں اسلام کہتی ہے اے راہ حق کے شہیدو


نور کمرے میں. آئ تو وارث کی وہ بات یاد آئ جو وہ جانے سے پہلے کر کے گیا تھا نور جب میں واپس او تو آپ وائٹ کلر کا ڈریس پہلنا اور اچھا سا تیار ہونا وارث نے کہا تو نور مسکرائ اور کچھ جناب نور نے پوچھا جی اور سب کے سامنے مجھے سے کہنا وارث میں آپ سے بہت محبت کرتی ہے وارث نے شرارت سے کہا وارث نور اس کو آنکھیں دیکھئیں تو وہ مسکرایا جی جان وارث بہت برے ہے آپ نور نے مکار مارتے ہوے کہا اہ مسز کبھی یہ بھی کہ دیا کرے آپ بہت اچھے ہے وارث نے کہا تو وہ مسکرای اووو مسٹر جلدی سے واپس آجائے نور نے الماری سے ڈریس نکالتے ہوے کہا


سارا دن نور کی نظریں درواذ پر رہی یہ انتظارا بھی کنتا درد دیتا ہے کبھی وہ وارث کی یادوں میں کھو جاتی تو کبھی اس سے شکوہ کرتی کبھی کہتی کہ وارث جب آپ او گئے میں آپ سے ناراض ہو جاو گئی تو کبھی کہتی نہیں اب میں آپ کو خود سے دور جانے نہیں دو گئی اففف اور کنتا انتظارا کروا گئے اپ نور بیٹا میں کب سے دیکھ رہی ہو تم کچھ بے چین ہو کیا بات ہے طعبیت ٹھیک ہے میری بیٹی کی حریم نے پوچھا ہاں کیا بات ہے بیٹا اب دعا نے پوچھا طعبیت ٹھیک ہے میری بری ماں بس وارث کا انتظارا کر رہی ہو نور نے کہا کیا شاہ انے والا ہے حریم اور دعا حیران ہوئی پتا نہیں ماما پر میرا دل کہتا ہے کہ وارث آج ضرور آئے گئے نور نے کہا نور جاو روم میں ٹھیوری دیر آرام کر لو حریم نے کہا جی اچھا نور نے ایک آخری نظر درواذ پر ڈالی اور اپنے روم کی طرف بڑھی کنتی محبت کرتی. ہے یہ شاہ سے دعا نے کہا جی بھابھی. لیکن شاہ بھی بہت کرتا ہے اس سے محبت حریم نے جواب دیا حریم آج میرا بھی دل کہتا ہے شاہ ائے گا دعا نے کہا اپ کے منہ میں گھی شکر بھابھی حریم نے مسکراتے ہوے کہا


کچھ دیر وہ لیٹی کہ اچانک اس کے دل کی ڈھکن تیز ہو گئی وہ جلدی سے اٹھی اب تو یہ دل بھی میرے اختیارا میں نہیں ہے وارث نور نے مسکراتے ہوے کہا اور روم سے نکالی بھاگ کر نیچے آئ نور آرام سے حریم چیخی ماما بڑی ماما وہ آگئے نور نے مسکراتے ہوے کہا اس ہی وقت گھر میں ایمبولینس داخل ہوئی نور درواذ تک ائی ایمبولینس دیکھ کر نور سکتے میں آگئی


کچھ ہی دیر میں یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی کہ کپیٹن "وارث علی شاہ نے آپریشن کے دوران جام شہید نوشن فرمائی ہے " گھر کے لان میں میڈیا والے اور بہت سے لوگ موجود تھا جن میں سے کیے راشتہ دار اور کیے جاننے والے تھے ہر آنکھ اشکبار تھی نور اب بھی درواذ کی دہلیزں پر کھڑی تھی آنکھیں سے آنسو جاری تھے بلال اب اس کی طرف ایا تو نور واپس گھر کی طرف بڑھی میری دہلیزں سے ہو کر ہوائیں جب گزارتی یہاں کیا دھوپ کیا ساوں ہوائیں بھی برساتی ہے ہم پوچھوں کیا ہوتا ہے بینا دل کے جینیے جانا بہت آئی گئی یادے نور کمرے میں ائی تو الماری کی طرف بڑھی الماری میں سے ایک چادر نکالی اور نقاب کیا پھر روم سے باہر آئی بلال نے اس کو باہر اتا دیکھا کر وہاں سے سب لوگوں کو پیچھے کیا اور میڈیا والوں کو گھر سے جانے کا کہا اب لان میں بس گھر والے تھا نور چلتی ہوئی تابوت کے پاس آئی جس میں موجود وہ شخص آرام کی نیند سو رہا تھا یقینا وہ اس کا شوہر ہی تھا اس کا وارث نور نے اس کو دیکھا تو اس کو لگا وارث سو رہا ہے وہ ابھی اس کو کہے گئی وارث تو وہ آنکھیں کھول لے گا اور کہے گا جی مسز کافی دیر وہ وارث. کو دیکھتی رہی وارث کے چہرے پر ایک الگ ہی نور تھا پھر ہاتھ بڑھا کر اس کے ماتھے سے بال پیچھے کیے ہمیشہ کی طرح نور کے آنسو زمیں پر گررہے تھے "وارث اتنی دیر کر دی انے میں دو ماہ گزر گئے وارث دو ماہ میں نے سوچا تھا آپ سے شکوہ کرو گئی ناراض ہو گئی یہ انتظارا بہت اذہت دیتا ہے وارث ایک سرپرائز دینا تھا آپ کو وارث نور نے کہا اور اپنے لب وارث کے کان کے پاس لے گئی وارث آپ بابا بننے والا ہے نور نے کہا اور اپنے لب اس کے ماتھے پر رکھے آپ چاھتے تھا نا میں وائٹ کلر پہنو یہ دیکھے اور میں سب کہ سامنے کہتی ہوں کہ وارث مجھے آپ سے بہت محبت ہے بہت نور نم آنکھوں سے مسکرائی آپ کی خواہش پوری ہو گئی آپ کو شہید کا مرتبہ مل گیا مجھے فخر ہے کہ میں ایک شہید کی بیوی ہو نور نے کہا اور وہاں سے اٹھ گئی جائے وارث میں نے آج آپ کو ہر وعدہ سے آزدا کیا خدا آپ کا آگے کا سفر آساں کرے نور نے کہا اور گھر کی طرف بڑھی حریم نے اس کے پاس آنا چاھ لیکن نور نے ہاتھ سے اشارہ کیا تو وہ وہی ہی رک گئی شششش ماما میرے وارث سو رہے ہے ان کو نتگ نہیں کرے ہم شہید کی موت پر ماتم نہیں کرتے نور نے حریم کو اونچی آواز میں رونے سے منع کیا اور ایک آخری نظر تابوت پر ڈالی تو کیا ہوا جدا ہوے مگر ہے🌹 خوشی ملے تو تھے تو کیا ہوا موڑے راستے🌹 کچھ دور سگہ چلے تو تھے 🌹 دوبارا ملے گئے کیسی موڑ پر جو 🌹 باکی ہے جو بات ہوگئی کبھی چلو🌹 آج چلتے ہے ہم پھر ملاقات ہوگئی 🌹 کبھی پھر ملاقات ہوگئی کبھی🌹 چلو آج چلتے ہم🌹
نور بلال کے پاس آئی وہ جو ساری رات روتا رہا لیکن نور کی باتے سن کر پھر سے اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے نور نے اس کے آنسو صاف کیا بھائ جائے اپنے دوست کو رخصت کرے خوشی خوشی نور نے کہا اور اندر کی طرف بڑھی مسز۔۔، نور،، جان وارث کیسی نے اس کو آواز دی نور نے چونک کر پیچھے دیکھا تو کوئی نہیں تھا سو وہ خاموشی سے اندر چلی گئی


یہ رات کا وقت تھا ہر طرف اندھیر کا راج تھا اور اس گھر کے مکینوں پر قیامت آکر گزار گئی تھی پورے گھر میں خاموشی تھی ایسی خاموشی جو کہ طوفان سے پہلے ہوتی ہے وہ چلتا ہوا اندر ایا اس کے کمرے کی طرف ایا اس کے ہاتھ میں ٹرے تھی نور جائے نماز پر بیٹھی دعا مانگ رہی تھی اس. نے ٹرے ٹیبل پر رکھی اور خود وہ اس کے پاس زمیں پر بیٹھ گیا نور نے دعا ختم کی وہ زمیں پر بیٹھا زمیں کو گھورا رہا تھا نور. نے اپنا سر اس کے کندھے پر رکھا وہ دونوں ہی بے آواز رونے لگئے کچھ دیر بعد. بلال کے اپنے آنسو صاف کیے اور نور کو خود سے الگ کیا اس کے آنسو بھی صاف کیا وہ اٹھا اور پانی لایا اس نے پانی نور کو دیا بہت دیر دونوں کے درمیان خاموشی رہی بلال بات کرنے کے لیے الفاظ تلاش کر رہا تھا لیکن زبان ساتھ نہیں دے رہی تھی سو وہ خاموشی سے پھر اٹھا اور ٹیبل سے ٹرے لی ایک نیوالا بنایا اور نور کے منہ کے قریب لایا تو نور نے نفی میں سر ہلایا بچے ضد نہیں کرو صبح سے بھوکی ہو کچھ کھا لو بلال نے بے بسی سے کہا بھائ دل نہیں کر رہا. نور نے کہا تو بلال نے گہرا سانس لیا پلیز چندا بلال نے کہا تو نور چپ کر کے اس کے ہاتھ سے کھانے لگئی بھائ باقی سب کیسے ہے سب نے کھانا کھایا نور نے کھانے کے دوران پوچھا بڑی ماما کی طعبیت بہت خراب تھی ڈاکٹر نے انجکیشن دیا ہے اور ماما بڑے پاپا اور حنسں کو ڈیڈ نے سنبھالا ہے مجھے میں اتنی ہمت نہیں تھی بھائی آپ نے کچھ کھایا تو بلال آنکھیں چڑائیں گیا تو اب نور نے نیوالا بنایا اور اس کے منہ کے قریب لی گئی تو بلال بغیر چو چے کیا کھا گیا بلال نے برین ٹیبل پر واپس رکھے نور کو نیچے سے اٹھیا اور صوفہ پر بیٹھیا اس کو میڈیسن دی نور تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا بلال نے کچھ دیر خاموش رہنے کہ بعد شکوہ کیا (گھر میں یہ بات بس دعا اور حریم کو پتا تھی کہ نور ماں بننے والی ہے ) بھائ وارث کے جانے سے ایک دن پہلے مجھے پتا چلا تھا سو سوچا ان کو سرپرائز دو گئی نور نے کہا نور بچے خوش رہوں بلال نے کہا اور ایک خط نور کو دیا بھائ یہ کیا ہے نور نے پوچھا نور یہ وارث نے لکھا تھا جانے سے پہلے ہم آپریشن میں جانے سے پہلے ایک حظ لکھتے ہے اگر زندہ واپس نہیں آتے تو یہ خط گھر والوں کو دیا جاتا بلال نے ضبط کرتے ہوے کہا نور میرا بچے یہ آپ کے نام ہے آپ کو صبر کرنا ہے میں کچھ دیر تک او گا بلال نے کہا اور روم سے نکل گیا جبکہ نور نے گہرا سانس لیا

   0
0 Comments